Pages

Saturday, May 8, 2021

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میرے معاملے میں دو قسم کے لوگ ہلاکت کا شکار ہوں گے۔

 

حضرت علی کرّم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میرے معاملے میں دو قسم کے لوگ ہلاکت کا شکار ہوں گے۔ ایک وہ طبقہ لوگوں کا ہلاک ہوگا جو محبت میں مجھے حد سے بڑھانے والا ہوگا اور وہ محبت انہیں غیرِحق کی طرف لے جائے گی اور دوسرا طبقہ وہ جو کہ بُغض میں مجھے مرتبے سے گھٹانے والا ہوگا اور یہ بُغض انہیں غیرِ حق کی طرف لے جائے گا اور میرے معاملے میں سب سے بہتر حال درمیانی جماعت کا ہے، پس اُسی کو لازم کرلو اور اُس درمیانی بڑی جماعت کے ساتھ وابستہ رہو کیوں کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت پر ہے۔ آگاہ ہوجاؤ ! اِس جماعت سے علیحدہ ہونے والا اسی طرح شیطان کا شکار ہوجائے گا جس طرح وہ بکری بھیڑئیے کا شکار ہوجاتی ہے جو گلے اور ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے‘‘ ( نہج البلاغۃ ) اگر اس فرمانِ علی کو دیکھا جائے تو یہ شریعت و سنّت کے عین مطابق ہے کیوں کہ قرآن و حدیث بھی ہر مسلمان کو افراط و تفریط سے پاک درمیانے درجے پر استقامت کی تعلیم دیتے ہیں، اعتدال اور میانہ رَوی ہی خدا و رسول کو پسند ہے۔ فرمانِ رسولِ خدا کے مطابق حضرت علی کی محبت علامت ِ ایمان ہے اور یہ محبت خدا و رسول کی محبت کے سبب سے ہے اس لئے حد سے افراط بھی غلط ہے اور بغضِ علی علامت ِ نفاق ہے اور کسی مسلمان کے لئے کینہ رکھنے والا بخششِ خدا وندی سے محروم رہتا ہے تو بِرادر و دامادِ رسول اور امام المتقین سیّدنا علی کا بُغض رکھنے والا کس طرح رحمت و مغفرت ِ الہٰی حاصل کرسکے گا ۔

مکمل تحریر >>

Friday, May 7, 2021

حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اللّہ سے سوال کِیا

اے خدا...!    تو لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر مار دیتا ہے اِس میں کیا حکمت ہے؟ ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  "چونکہ تیرا سوال انکار اور غفلت پر مبنی نہیں ہے اِس لیے میں دَرگُزر کرتا ہوں ورنہ سزا دیتا۔ تُو اِس لیے جان  کر رہا ہے تاکہ عوام کو ہماری حِکمتوں سے آگاہ کر دے, ورنہ تجھے مخلوق کے پیدا کرنے میں ہماری حِکمتیں معلوم ہیں۔تیرا سوال علم کے منافی نہیں ہے۔ کسی چیز کے بارے میں سوال آدھا عِلم ہوتا ہے۔ اگرچہ تو اِس سے واقف ہے لیکن تو چاہتا ہے کہ عوام بھی جان جائیں۔ کسی چیز کا علم ہو جانے کے بعد ہی اُس کے بارے میں سوال جواب ہو سکتا ہے۔ عِلم ہی گُمراہی اور ہدایت کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ نمی اور تَری ہی پھل میں شیرینی کے علاوہ تلخی بھی پیدا کرتی ہے۔ملاقات اور تعارف سے دوستی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اور غذا ہی سے بیماری اور صحت دونوں پیدا ہوتی ہیں۔ اے موسیٰ تُو ناواقفوں کو حِکمتوں سے واقف کرانا چاہتا ہے اِس لیے تَجاہُلِ عارفانہ بَرت رہا ہے۔ ہم بھی اِس کے علم سے انجان بن کر تجھے جواب دیتے ہیں۔"

اللّہ تعالیٰ نے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو حُکم دیا کہ: "کھیتی بو دو۔" جب کھیتی تیار ہو گئی تو اُنہیں اُسے کاٹنے کا حُکم دیا۔ اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے پوچھا: "کہ تُو نے خود کھیتی بوئی اور پھر اُسے کیوں کاٹ ڈالا؟؟
حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کِیا کہ: "کھیتی کے پکنے پر اُس میں دانہ اور بھوسا تھا اور دونوں کو مِلا جُلا دینا مناسب نہ تھا۔ حِکمت کا تقاضہ یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔"
حق تعالیٰ نے پوچھا کہ: "یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟"
حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ: "یہ دانش اور عقل آپ کی عطا کردہ ہے۔"
اللّہ تعالیٰ نے فرمایا: "پھر یہ دانش مجھ میں کیوں نہ ہو گی۔ دیکھو انسانوں کی رُوحیں دو قِسم کی ہیں ایک پاک, ایک ناپاک, سب انسانی جسم ایک رُتبے کے نہیں ہیں۔ کسی جسم میں موتی جیسی رُوح ہے اور کسی میں کنچ کی پوتھ کی طرح کی۔ اُن روحوں کو بھی اِسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا مناسب ہے جس طرح گیہوں کو بھوسے سے تاکہ نیک رُوحیں جنّت کو چلی جائیں اور بُری دوزخ کو۔ پہلی حِکمت تو مارنے کی تھی اور پیدا کرنے کی حِکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اِظہار ہو جائے۔"

حدیثِ قُدسی ہے کہ:"میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔"
مخلوقات مظہرِ صفاتِ خداوندی ہیں۔ انسان کے جسم میں جو موتی ہے اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کی حفاظت کرنی چاہیے
مکمل تحریر >>